حرفِ آغاز

حرمت مصاہرت

(۲)

حبیب الرحمن اعظمی

 

احادیث و آثار

عن ابی ہانی قال : قال رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم : من نظر الی فرج امرأة لم تحل لہ امّہا ولا ابنتہا (مصنف ابن ابی شیبة کتاب النکاح، الرجل یقع علی ام امرأتہ، ج:۳، ص: ۳۰۴) ورجالہ ثقات مشہورون (۱)

ترجمہ: ابوہانی (حمید بن ہانی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی عورت کی شرمگاہ پر نظر ڈالی تو اس کیلئے نہ اس عورت کی ماں حلال ہوگی نہ اسکی بیٹی۔ (یعنی اس دیکھنے کی وجہ سے اس عورت کی ماں اور بیٹی سے اس مرد کے لئے نکاح کرنا حرام ہوجائے گا، چونکہ حدیث میں نظر حلال و نظر حرام کی تفصیل نہیں بیان کی گئی ہے اس لئے یہ حکم دونوں طرح کی نظر کو شامل ہوگا اور جب نظر سے حرمت کا ثبوت ہوجاتا ہے تو ہمبستری سے بدرجہ اولیٰ ثابت ہوجائے گی۔

اس حدیث کی تائید درج ذیل احادیث صحیحہ سے بھی ہوتی ہے۔

(الف) عن ابی ہریرة (رضی اللہ عنہ) قال: قال رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم: لم یتکلم فی المہد الا ثلاثة، عیسی بن مریم، قال : وکان فی بنی اسرائیل رجل عابد یقال لہ جُریج، فابتنی صومعة و تعبد فیہا، قال : فذکر بنو اسرائیل عبادة جریج فقالت بغی منہم : لئن شئتم لاَفتننہ، فقالوا: قد شئنا ذاک، قال: فاتتہ فتعرضت لہ، فلم یلتفت الیہا، فامکنت نفسہا من راع کان یوٴوی غنمہ الی اصل صومعة جریج فحملت فولدت غلاماً فقالوا ممن ؟ قالت من جریج، فاتوہ فاستنزلوہ فشتموہ وضربوہ وہدموا صومعتہ، فقال: ما شأنکم ؟ قالوا: انک زینت بہذہ البغی فولدت غلامًا، فقال این ہو؟ فقالوا ہو ہذا، قال فقام فصلی و دعا ثم انصرف الی الغلام فطعنہ فقال: باللہ  یا غلام من ابوک؟ فقال ابن الراعی، فوثبوا الی جریج فجعلوا یقبلونہ، وقالوا: نبنی صومعتک من ذہب، قال: لا حاجة لی ذلک انبوہا من طین کما کانت الحدیث (فتح الباری، ج:۶، ص: ۵۸۹ والمفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم، ج:۶، ص: ۵۱۱، ومسند احمد واللفظ لہ)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گود کی عمر میں (یقینی طور پر) صرف تین بچوں نے گفتگو کی ہے۔ ایک حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام، بعد ازاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک عبادت گذار شخص تھا جس کا نام جریج تھا اس نے ایک عبادت خانہ بنایاتھا جس میں مصروف عبادت رہتا، ایک دن بنی اسرائیل نے جریج کی عبادت کا (بطور تعریف کے) ذکر کیا تو ایک بدکار عورت نے کہا اگر تم لوگ چاہو تو میں اسے اپنے دام گناہ میں پھانس لوں، لوگوں نے کہا ایسا کرلو، چنانچہ وہ جریج کے پاس آئی اور اپنے کو انھیں پیش کیا، مگر انھوں نے اس کی جانب کوئی توجہ نہیں کی، (ان کے پاس سے نامراد ہوکر واپس ہوئی تو) ایک چرواہے سے (جو جریج کے عبادت خانہ کے پاس اپنی بکریاں رکھتا تھا) بدکاری کرایا جس سے اس کو حمل ہوگیا، (مدت حمل پوری ہوجانے پر) اس نے ایک بچہ کو جنم دیا، لوگوں نے اس سے پوچھا یہ کس کا بچہ ہے تو اس نے کہا جریج کا، (یہ سن کر وہ لوگ جریج پر بہت برافروختہ ہوئے) اور ان کے پاس آکر عبادت خانہ سے انھیں نیچے لائے اور انھیں برابھلا کہا اور زد و کوب بھی کیا، نیز ان کے عبادت خانہ کو بھی ڈھادیا، (جریج نے ان کے اشتعال کو دیکھ کر) پوچھا آخر ماجرا کیا ہے تو لوگوں نے کہا تم نے اس فاحشہ سے بدکاری کی ہے (اور تمہارے نطفہ سے) اس نے ایک بچہ کو جنم دیا ہے، جریج نے پوچھا وہ بچہ کہاں ہے، لوگوں نے اسے پیش کردیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (یہ صورت حال دیکھ کر جریج اپنے رب کی جانب متوجہ ہوئے) نماز نفل پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی پھر بچے کے پاس آئے اوراس کے شکم میں انگلی سے چونکتے ہوئے کہا بخدا بتاؤ تم کس کے بیٹے ہو، بچہ نے جواب دیا میں چرواہے کا بیٹا ہوں (جریج کی اس کرامت سے ان کی پاک دامنی کا یقین آجانے پر) وہ سب تیزی سے جریج کی جانب لپکے (اور فرط عقیدت میں) انھیں بوسہ دینا شروع کردیا اور بولے ہم آپ کے عبادت خانہ کو سونے کا بنائیں گے۔ جریج نے کہا مجھے سونے کے معبد کی کوئی ضرورت نہیں اسے مٹی کا جیسے پہلے تھا بنادو الخ۔

اس حدیث پاک کے جملہ ”یا غلام من ابوک ؟ قال فلان الراعی“ کے تحت حافظ ابوالعباس القرطبی لکھتے ہیں کہ (بعض علمائے مالکیہ) نے اس سے زنا کے ذریعہ حرمت مصاہرت کے مسئلہ پر استدلال کیا ہے اور صورت استدلال کی ان لفظوں میں وضاحت کی ہے۔

یتمسک بہ من قال ان الزنی یحرّم کما یُحرّم الوطء الحلال، فلا تحلُّ ام المزنی بہا ولا بناتہا للزانی، ولا تحل المزنی بہا لآباء الزانی ولا لاولادہ ․․․ ووجہ التمسک : ان النبی صلی اللہ  علیہ وسلم قد حکی عن جریج انہ نسب ابن الزانی للزانی، وصدّق اللہ  نسبتہ بما خرق لہ العادة فی نطق الصبیٴ بالشہادة لہ بذلک، فقد صدّق اللہ  جریجاً فی تلک النسبة واخبربہا النبی صلی اللہ  علیہ وسلم عن جریج فی معرض المدح لجریج واظہار کرامتہ فکانت تلک النسبة صحیحة بتصدیق اللہ  وباخبار النبی صلی اللہ  علیہ وسلم عن ذلک فثبت البنوَّة والابوة واحکامہا الخ (المفہم شرح تلخیص صحیح مسلم، ج:۶، ص: ۵۱۴)

اس جملہ سے ان علماء نے استدلال کیا ہے جو اس کے قائل ہیں کہ زنا سے بھی وطی حلال کی طرح حرمت کا ثبوت ہوجاتا ہے، لہٰذا جس عورت سے یہ حرام کاری کی گئی ہے اس کی ماں اور بیٹی، مرد زانی پر حرام ہوجائے گی، اور خود یہ عورت زانی کے باپ اور اولاد کے لئے حلال نہ ہوگی۔

استدلال (اور دلیل پکڑنے) کی صورت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جریج عابد کی یہ بات نقل فرمائی کہ انھوں نے ولدالزنا (یعنی زانی کے بیٹے کو) زانی کی جانب منسوب کیا اور اللہ تعالیٰ نے خلاف عادت اس گود کے بچے سے زبانی شہادت دلاکر اس نسبت کی تصدیق کردی، لہٰذا جب اللہ تعالیٰ نے بچے کی زانی کی جانب نسبت میں جریج کی سچائی کو صحیح بتادیا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جریج کی تعریف اور ان کی کرامت کے اظہار کے طور پر اسے بیان فرمایا تو اللہ تعالیٰ کی تصدیق اور نبی علیہ الصلوٰة والسلام کے اس بیان سے یہ نسبت صحیح ہوگئی تو زانی اور ولدالزنا کے درمیان باپ، بیٹا ہونے کا رشتہ اور رشتہ کے احکام ثابت ہوجائیں گے۔ (البتہ وراثت اور وَلاء کے احکام کا اس سے باجماع امت ثبوت نہیں ہوگا، جیسا کہ حافظ قرطبی نے آخر میں اس کی وضاحت کردی ہے)۔

معروف مفسر علامہ ابوعبداللہ القرطبی نے اپنی بینظیر تفسیر الجامع لاحکام القرآن، ج:۵، ص: ۱۱۵، اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہما اللہ نے فتح الباری، ج:۶، ص: ۵۹۷ میں بھی اس استدلال کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور اس پرکوئی نقد نہیں کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ استدلال ان کے نزدیک بھی درست ہے۔

(ب) عن عائشة رضی اللہ عنہا انہا قالت : اختصم سعد بن ابی وقاص و عبد بن زمعة فی غلام، فقال سعد : ہذا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ابن اخی عتبة بن ابی وقاص عہد الیّ انہ ابنہ انظر الی شبہہ، وقال عبد بن زمعة ہذا اخی یا رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم ولد علی فراش ابی من ولیدتہ، فنظر رسول اللہ  الی شبہہ فرأی شبہاً بینًا بعتبة، فقال: ہولک یا عبد الولد للفراش وللعاہر الحجر، واحتجبی منہ یا سودة بنت زمعة ! قالت فلم یر سودة قط․(صحیح مسلم، ج:۱، ص: ۴۷۰ مع شرح النووی)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا! سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ نے ایک غلام کے بارے میں مقدمہ پیش کیا، سعد نے اپنا دعویٰ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ غلام میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا بیٹا ہے اس نے مجھے وصیت کی تھی یہ اسی کا بیٹا ہے، یا رسول اللہ اس کے حلیہ کو دیکھئے، اور عبد بن زمعہ نے اپنے حق کے ثبوت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ (…) یہ میرا بھائی ہے یہ میرے باپ کی ہمبسترباندی سے پیدا ہوا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کے حلیہ کو دیکھا تو وہ واضح طور پر عتبہ کے ہم شکل تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد (بن زمعہ) یہ تمہارا ہی بھائی ہے (کیونکہ اسلامی اصول کے مطابق) لڑکا ہمبسترہی کا ہوگا اور زانی کیلئے تو خسرانِ محض ہے۔ اور ام الموٴمنین سودة بنت زمعہ سے فرمایا اے سودة اس غلام سے پردہ کرو، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اسکے بعد سودة نے اس غلام کو کبھی نہیں دیکھا۔

اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”احتجبی منہ یا سودة“ کے تحت امام خطابی لکھتے ہیں : ”(فیہ) حجة لمن ذہب الی ان من فجر بامرأة حرمت علی اولادہ والیہ ذہب اہل الرأی وسفیان الثوری والاوزاعی واحمد، لانہ لما رأی الشبہ بعتبة علم انہ من مائہ فاجراہ فی التحریم مجری النسب وامرہا باحتجاب منہ (معالم السنن، ج:۳، ص: ۱۸۲ مطبوعة دارالمعرفة بیروت مع مختصر سنن ابی داوٴد للمنذری)

اس میں ان لوگوں کی حجت و دلیل ہے جو اس جانب گئے ہیں کہ جس شخص نے کسی عورت سے بدکاری کی تو یہ عورت اس بدکار کی اولاد پر حرام ہوجائے گی، یہی اہل الرائے، سفیان ثوری، الاوزاعی اور احمد بن حنبل کا مسلک ہے۔ کیونکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس غلام میں) عتبہ بن ابی وقاص کی شباہت دیکھی تو آپ کو علم ہوگیا کہ یہ عتبہ کے نطفہ سے ہے تو اس نطفہٴ حرام کو ثبوت حرمت میں نسب کا ہم درجہ ٹھہراتے ہوئے حضرت سودة رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ اس سے پردہ کرو۔

حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی اس استدلال کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

واستدل بہ علی ان لوطء الزنا حکم وطء الحلال فی حرمة المصاہرت وہو قول الجمہور، ووجہ الدلالة امر سودة بالاحتجاب بعد الحکم بانہ اخوہا لاجل الشبہ بالزانی (فتح الباری، ج:۱۲، ص: ۴۳ مطبوعہ قدیمی کتبخانہ آرام باغ کراچی)

 اس سے اس بات پر استدلال کیاگیا ہے کہ حرمت مصاہرت کے اثبات میں وطی حرام، حلال وطی کے حکم میں ہے، یہی جمہور کا قول ہے۔

اس فیصلہ کے بعد کہ یہ غلام حضرت سودہ کا بھائی ہے آپ نے انھیں حکم دیا کہ اس غلام سے پردہ کریں کیونکہ وہ زانی کے ہم شکل تھا۔ صاحب المنہل اس استدلال کی وضاحت یوں کرتے ہیں:

دل قولہ صلی اللہ  علیہ وسلم : ”واحتجبی منہ یا سودة“ علی ان من زنی بامرأة حرمت علی اصولہ و فروعہ وحرم علیہ اصل مزنیتہ وفرعہا لان کل تحریم تعلق بالوطء الحلال یتعلق بالوطء الحرام، واللمس بشہوة باحدہما ولو بحائل وجد معہ حرارة الملموس سواء اکان عمدا ام سہوا ام خطاء ام کرہا یوجب حرمة المصاہرة کالنکاح، لانہ من دواعی الوطء، وبہذا قال جمہور الصحابة والتابعین والحنفیون وسفیان الثوری، والاوزاعی واحمد، لان النبی صلی اللّہ علیہ وسلم لما رأی الشبہ بعتبة علم انہ من مائہ فاجراہ فی التحریم مجری النسب وامرہا بالاحتجاب منہ (فتح الملک المعبود تکملة المنہل العذب المورود شرح سنن الامام ابی داوٴد، ج:۴، ص: ۲۸۱، مطبوعة موسسة التاریخ العربی بیروت ۱۳۹۴ھ/۱۹۷۴ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ”اے سودة اس سے پردہ کرو“ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص کسی عورت سے زنا کرے گا تو یہ عورت اس زانی کے اصول و فروع (یعنی باپ دادا اور اولاد در اولاد) پر حرام ہوجائے گی اوراس مزنیہ کے اصول و فروع اس مرد زانی پر حرام ہوجائیں گے، اس لئے کہ وطی حلال سے جو حرمت متعلق ہوتی ہے وہ وطی حرام سے بھی متعلق ہوتی ہے اور شہوت کے ساتھ چھونا اگرچہ اسے حائل کے ساتھ کہ ملموس (جسے چھویا جائے) کے جسم کی گرمی محسوس ہو یہ شہوت سے چھونا قصدا ہو یا سہواً غلطی سے یا بزور و زبردستی ان سب سے نکاح کی طرح حرمت مصاہرت کا ثبوت ہوجائے گا، کیونکہ یہ سب باتیں وطی کے اسباب میں داخل ہیں۔ جمہور صحابہ، تابعین، احناف، امام سفیان ثوری(۲) امام اوزاعی اور امام احمد بن حنبل (وغیرہ) اسی کے قائل ہیں۔

(۱)    اثر عبداللہ بن مسعود:عن عبداللہ  قال : لا ینظر اللہ  الی رجل نظر الی فرج امرأة وابنتہا“ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج:۳، ص: ۳۰۴ باب الرجل یقع علی ام امرأتہ)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی جانب نہیں دیکھیں گے جس نے کسی عورت کی فرج کو دیکھا پھر اس عورت کی بیٹی کی فرج کو بھی دیکھا۔ (یہ اثر بھی مطلق ہے جس میں نگاہِ حلال و حرام دونوں داخل ہیں)

امام بیہقی اس اثر کو ذکر کرنے کے بعد رقمطراز ہیں:

”ہذا ایضا ضعیف، قال ابوالحسن الدارقطنی ہذا موقوف ولیث وحماد ضعیفان“ (السنن الکبری، ج:۷، ص: ۱۷۰)

اس اثر کے راوی درج ذیل ہیں:

۱حفص بن غیاث، ۲ لیث بن ابی سلیم، ۳ حماد بن ابی سلیمان شیخ امام ابی حنیفہ، ۴ابراہیم نخعی، ۵ علقمہ۔ ان پانچوں میں ۱، ۴، ۵ متفق علیہ ثقہ ہیں اور شیخین ہی نہیں بلکہ محدثین کی پوری جماعت ان سے روایت کرتی ہے۔ ۲ اور ۳ پر امام دارقطنی نے ضعف کی جرح کی ہے اسی بناء پر امام بیہقی اس اثر کو ضعیف بتارہے ہیں۔

بلاشبہ علمائے جرح و تعدیل کی ایک جماعت نے سیٴ الحفظ ہونے کی بناء پر ان کی تضعیف کی ہے، لیکن اسی کے ساتھ ائمہ رجال میں سے ایک جماعت انھیں جائز الحدیث و لا بأس بھی کہتی ہے۔ ذیل میں ان کے بارے میں بعض اصحاب جرح و تعدیل کے تبصرے ملاحظہ کیجئے۔

امام ذہبی لکھتے ہیں:

”فیہ ضعف یسیر من سوء حفظہ کان ذا صلاة وصیام وعلم کثیر وبعضہم احتج بہ“ (الکاشف، ج:۲، ص: ۱۵۱)

ان میں سوء حفظ کی بناء پر تھوڑا سا ضعف ہے۔ یہ عبادت گذار اور علم کثیر سے متصف تھے، بعض محدثین ان سے احتجاج کرتے ہیں۔ امام موصوف میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں:

اللیث بن ابی سلیم الکوفی احد العلماء، قال احمد مضطرب الحدیث ولکن حدث عنہ الناس، وقال یحییٰ والنسائی ضعیف، وقال ابن معین لابأس بہ․․․ حدث عنہ شعبة، ابن علیة، وابومعاویة والناس (ج:۳، ص: ۴۲۰-۴۲۱)

لیث بن ابی سلیم کوفی علمائے حدیث میں سے تھے، امام احمد ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مضطرب الحدیث تھے پھر بھی محدثین ان سے روایت کرتے ہیں۔ امام شعبہ، ابن عُلیہ، ابومعاویة جیسے اکابر ائمہ اور عام محدثین ان سے روایت کرتے ہیں۔ تہذیب الکمال اوراس کے حاشیہ میں ان کے متعلق حسب ذیل نقد و تبصرہ نقل کیاگیا ہے۔

قال ابن عدی: لہ احادیث صالحة غیر ما ذکرت وقد روی عنہ شعبة، والثوری وغیرہما من ثقات الناس ومع الضعف الذی فیہ یکتب حدیثہ، وقال البرقانی سالت الدار قطنی عن لیث بن ابی سُلیم فقال: صاحب سنة یخرّج حدیثہ ثم قال انما انکروا علیہ الجمع بین عطاء، وطاوٴس، ومجاہد حسب، وقال العجلی: جائز الحدیث وقال مرة لابأس بہ استشہد بہ البخاری فی الصحیح، وروی لہ فی کتاب ”رفع الیدین فی الصلاة، وروی لہ مسلم مقرونا بابی اسحاق، وروی لہ الباقون (ج:۶، ص: ۱۹۱، رقم الترجمہ ۵۶۰۶)

ترجمہ: ابن عدی نے کہا میری ذکر کردہ روایتوں کے علاوہ ان سے صالح و درست احادیث بھی مروی ہیں، امام شعبہ، سفیان الثوری وغیرہ ثقہ لوگوں نے ان سے روایت کی ہے۔ ان میں موجود کمزوری کے باوجود ان کی حدیثیں لکھی جائیں گی۔ برقانی کہتے ہیں میں نے امام دارقطنی سے ان کے بارے میں پوچھا، تو فرمایا: صاحب سنة ہیں ان کی احادیث کی تخریج کی جائے گی۔ ان کا سند واحد میں عطاء، طاؤس اور مجاہد کا جمع کردینا ہی صرف ائمہ حدیث کے نزدیک منکر ہے۔

امام مزّی کہتے ہیں کہ امام بخاری نے صحیح میں ان سے استشہاد کیا ہے، اور اپنی کتاب ”جزء رفع الیدین فی الصلاة“ میں ان کی روایت نقل کی ہے، امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابواسحاق سبیعی کے ساتھ ان کی حدیث بیان کی ہے، اور بقیہ اصحاب ستہ نے ان سے روایت کی تخریج کی ہے، علاوہ ازیں امام ترمذی، جامع ترمذی میں لکھتے ہیں:

قال محمد بن اسماعیل (یعنی البخاری) : لیث بن ابی سلیم صدوق ربما یہم فی الشیٴ امام بخاری فرماتے ہیں کہ لیث بن ابی سلیم صدوق ہیں البتہ کبھی کبھی بعض حدیثوں میں غلطی کرجاتے ہیں۔

حضرات ائمہ جرح وتعدیل کے ان اقوال کے پیش نظر ان کی روایت کو ضعیف کہہ کر مطلقاً رد کردینا تعنت و بیجا تشدد سے خالی نہیں، کیونکہ اس درجہ کا راوی بعض حضرات محدثین کے نزدیک (بدرجہ حسن الحدیث) لائق احتجاج ہوتا ہے۔ جیسا کہ امام ذہبی نے الکاشف میں اس کی صراحت کی ہے۔ اور جمہور محدثین کے نزدیک اگر اس کی روایت کا کوئی شاہد یا متابع مل جائے تو یہ روایت حسن کے مرتبہ میں پہنچ جائے گی اور لائق استدلال ہوگی، اور اوپر مذکور ابن ہانی کی مرسل حدیث بلاشبہ اس کی شاہد ہے۔ اس لئے امام بیہقی کا اسے ضعیف کہہ کر ناقابل استدلال ٹھہرانا ائمہ حدیث کے اصول اور تعامل کے خلاف ہے، جو لائق قبول نہیں۔

اور راوی ۳ یعنی حماد بن ابی سلیمان (جنھیں امام دارقطنی ضعیف بتارہے ہیں) کے بارے میں حضرات علمائے رجال کے اقوال ملاحظہ کیجئے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ امام موصوف کی اس جرح مبہم میں کتنی جان ہے۔

حماد بن ابی سلیمان کے تذکرہ میں حافظ مزّی لکھتے ہیں:

قال اسحاق بن منصور انہ (ای یحیٰی بن معین) سئل عن مغیرة و حماد ایہما اثبت؟ قال حماد، وقال : حماد ثقة، وقال احمد بن حنبل حماد اصح حدیثا من ابی معشر، وقال العجلی: حماد بن ابی سلیمان کوفی ثقة، وقال النسائی: ثقة الا انہ مرجئی، وقال شعبة: کان صدوق اللسان (تہذیب الکمال، ج:۲، ص: ۲۸۳، رقم الترجمة ۱۴۶۷)

یحییٰ بن معین سے دریافت کیاگیا کہ مغیرہ (بن مقسم الکوفی) و حماد میں اثبت کون ہے؟ تو جواب دیا حماد اور یہ بھی کہا کہ حماد ثقہ ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ ابو معشر (زیاد بن کلیب کوفی) کے مقابلہ میں حماد روایت حدیث میں زیادہ صحیح ہیں (زیاد بن کلیب ابومعشر کوفی کو حافظ نے تقریب، ص: ۲۲۰ میں ثقہ کہاہے اور امام ذہبی نے الکاشف، ج:۱، ص: ۴۱۲ میں حافظ متقن بتایا ہے اور مغیرہ (بن مِقسم کوفی کو امام ذہبی الکاشف، ج:۲، ص: ۱۳۳ میں ثقہ اور حافظ تقریب، ص: ۵۴۳ میں ثقہ متقن بتاتے ہیں(۳)، لہٰذا امام احمد اور یحییٰ بن معین کے نزدیک حفظ واتقان اور ثقاہت میں حماد بن ابی سلیمان مذکورہ دونوں بزرگوں سے فائق اور مقدم ہیں) اور امام عجلی نے کہا ہے کہ حماد بن ابی سلیمان کوفی، ثقہ ہیں، اور امام نسائی کہتے ہیں حماد ثقہ ہیں مگر مرجئی ہیں۔(۴)

امام ذہبی نے الکاشف میں ان کے متعلق اپنا یہ فیصلہ درج کیا ہے:

”ثقة، امام، مجتہد، کریم، جواد“ (ج:۱، ص: ۳۴۹ رقم الترجمہ ۱۲۲۱)

حماد بن ابی سلیمان، ثقہ، امام، مجتہد، کریم اور اعلیٰ درجہ کے سخی تھے۔

اوپر مذکور ائمہ رجال کے توثیقی اقوال اور امام ذہبی (جو بقول حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی رجال حدیث کے نقد و تحقیق میں استقراء تام کے مالک ہیں) کے اس دوٹوک فیصلہ کے بعد حماد بن ابی سلیمان کے ثقہ و ثبت ہونے میں کیا تردد ہوسکتا ہے؟ ہاں اس سے انکار نہیں کہ بعض ائمہ حدیث نے ان پر سوء حفظ وغیرہ کی جرحیں بھی کی ہیں مگر ان میں اکثر جرحیں بربنائے عقیدہ کی گئی ہیں جن کا محدثین کے یہاں اعتبار نہیں۔ چنانچہ تہذیب الکمال کے محقق و محشی علامہ بشار عوّاد ان جرحوں کے متعلق اپنے حاشیہ میں لکھتے ہیں۔

”انااخوف ما اکون ان یکون تضعیف بعض من ضعفہ انما ہو بسبب العقائد نسأل اللہ  العافیة، واحسن ما قیل فیہ عندی ہو قول النسائی ثقة الا انہ مرجئی“ (ج:۲، ص: ۲۸۴ تعلیقاً) مجھے اس بات کا بہت زیادہ اندیشہ ہے کہ بعض حضرات محدثین نے ان پر ضعیف ہونے کی جو جرحیں کی ہیں اس کا سبب عقائد ہوں، اللہ سے ہم عافیت کے طلب گار ہیں اور میرے نزدیک ان کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے ان میں سب سے بہتر قول امام نسائی کا ہے کہ وہ ثقہ ہیں البتہ مرجئی ہیں (اور اس ارجاء کی حقیقت امام ذہبی نے واضح کردی ہے فتنبہ) لہٰذا امام دارقطنی اور امام بیہقی کی جلالتِ شان کے باوجود حماد بن ابی سلیمان کے بارے میں ان کی یہ رائے قبول نہیں کی جاسکتی اور بلاشبہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول یہ اثر حضرات محدثین کے مقررہ اصول کے لحاظ سے لائق احتجاج و استدلال ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

(۲)   اثر عمران بن حصین رضی اللہ عنہ: عن قتادة عن عمران بن حصین فی الذی یزنی بام امرأتہ، قد حرمتا علیہ جمیعاً (مصنف عبدالرزاق، ج:۷، ص: ۲۰۰، الطبعة الاولیٰ ۱۳۹۲ھ / ۱۹۷۲ء، المجلس العلمی، ومصنف ابن ابی شیبة، ج:۳، ص: ۳۰۳ و ص : ۳۱۶ و”سندہ متصل صحیح“ فی باب الرجل یزنی باخت امرأتہ مطبوعہ دارالفکر پاکستان، صحیح بخاری تعلیقًا، فتح الباری، ج:۹، ص: ۱۹۱ و سنن الکبریٰ، ج:۷، ص: ۱۶۸)

صحابی رسول حضرت عمران بن حصین سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی کی ماں (یعنی ساس) سے بدکاری کریگا تو اس پر دونوں (یعنی بیوی اور ساس) حرام ہوجائیں گی۔

حضرت عمران رضی اللہ عنہ سے منقول یہ اثر صحیح اور اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے اور جمہور محدثین و فقہاء کے نزدیک صحابی کا وہ قول جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے معارض نہ ہو حجت ہوتا ہے۔

(۴) و عن ابی ہریرة رضی اللہ  عنہ قال: لا تحرم علیہ حتی یلزق بالارض، یعنی حتی یجامع رواہ البخاری فی صحیحہ تعلیقًا (فتح الباری، ج:۹، ص: ۱۹۵، و عند المحدثین تعلیقات البخاری صحیحة)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (جب تک کوئی شخص اپنی بیوی کی ماں کو) زمین پر نہیں لٹائے گا حرمت ثابت نہیں ہوگی۔

مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ بھی صورتِ مذکورہ میں حرمت کے قائل ہیں البتہ ان کے نزدیک یہ حرمت خاص زنا سے ثابت ہوگی۔ اسباب زنا سے نہیں۔ (اسباب زنا سے حرمت کے ثبوت پر ائمہ اربعہ متفق ہیں اور اس بارے میں ان کے پاس قوی دلائل موجود ہیں)

(۳)   اثر عبداللہ  بن عباس رضی اللہ عنہما: عن ابی نصر عن عبداللہ  بن عباس رضی اللہ عنہما ان رجلا قال: انہ اصاب ام امرأتہ، فقال لہ ابن عباس حرمت علیک امرأتک وذلک بعد ان ولدت منہ سبعة اولاد کلہم بلغ مبالغ الرجال (اخرجہ الامام سفیان الثوری فی جامعہ موصولا الی ابن عباس، کما قال الحافظ فی فتح الباری، ج:۹، ص: ۱۹۴، واخرجہ ایضا الامام محمد بن الحسن الشیبانی فی کتاب الحجج ص:۳۳۹ مطبوعہ انوار محمدی) والامام البخاری فی صحیحہ تعلیقا و ابن حزم فی المحلّٰی، ج:۱۱، ص: ۷۹ رقم االمسئلة ۱۸۶۶)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے ایک شخص نے عرض کیا کہ اس نے اپنی بیوی کی ماں سے مباشرت کی ہے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم پر تمہاری بیوی حرام ہوگئی جبکہ اس شخص کے اپنی بیوی سے سات لڑکے تھے اور یہ سب لڑکے جوان ہوگئے تھے۔

اس حدیث کو سفیان ثوری نے درج ذیل سند سے روایت کیا ہے:

(۱) سفیان عن الاغر بن الصباح المنقری، (۲) عن خلیفة بن الحصین، (۳)عن ابی نصر عن ابن عباس رضی اللہ  عنہ ․

(۱) الاغر بن الصباح کو ابوحاتم نے صالح اور یحییٰ بن معین نے ثقة کہا ہے (کتاب الجرح والتعدیل، ج:۲، ص: ۳۰۸-۳۰۹) اور امام ذہبی نے بھی ان کی توثیق کی ہے (الکاشف، ج:۱، ص: ۲۵۴)

(۲) دوسرے راوی خلیفہ بن الحصین کی امام نسائی نے توثیق کی ہے۔ نیز ابن القطان الفاسی، و ابن خلفون، اور حافظ ذہبی و حافظ ابن حجر وغیرہ بھی ان کی توثیق کرتے ہیں (تہذیب الکمال، ج:۲، ص: ۳۹۷ و تعلیقہ من العلامہ بشار عواد، رقم الترجمہ ۱۷۰۲)

(۳) اور تیسرے راوی ابو نصر الاسدی کی توثیق ابوزرعہ الرازی نے کی ہے (تہذیب الکمال، ج:۸، ص: ۴۴۱ و ۴۴۲ و تہذیب التہذیب، ج:۱۲، ص: ۲۳۰ و فتح الباری، ج:۹، ص: ۱۹۵) لہٰذا اس کی سندبے غبار صحیح ہے۔ البتہ امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری میں لکھتے ہیں ”وابو نصر ہذا لم یعرف بسماعہ من ابن عباس“ ان ابونصر کا سماع حضرت ابن عباس سے معروف نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ امام بخاری کے علم کے مطابق یہ اثر منقطع السند ہے لہٰذا لائق اعتماد نہیں۔

حافظ عینی، امام بخاری کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”وعدم المعرفة بسماعہ عن ابن عباس ہو قول البخاری وعرفہ ابوزرعة بانہ اسدی وانہ ثقة وروی عن ابن عباس انہ سأل عن قول عز وجلّ ”والفجر ولیال عشر“ انتہیٰ، فان کانت الطریق الیہ صحیحة فہو یرد قول البخاری ولا شک ان عدم معرفة البخاری بسماعہ من ابن عباس لا تستلزم لنفی معرفة غیرہ بہ علی ان الاثبات اولیٰ من النفی (عمدة القاری، ج:۲۰، ص: ۱۰۳ مطبوعہ کراچی پاکستان) ابونصر کا حضرت ابن عباس سے براہ راست سماع کا معروف نہ ہونا یہ امام بخاری کا قول ہے، حالانکہ ابوزرعہ رازی ان کو پہچانتے ہیں کہ وہ قبیلہٴ اسد سے تعلق رکھتے ہیں اور ثقہ ہیں اور ابن عباس سے متعلق مروی ہے کہ ابونصر نے ان سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ”والفجر ولیال عشر“ کی تفسیر پوچھی تھی، الخ ۔ اگر یہ روایت ان تک صحیح سند سے ثابت ہوجائے تو (ابونصر کا ابن عباس سے سماع ثابت ہوجائے گا) اور امام بخاری کے قول کی تردید ہوجائے گی۔ پھر اس میں کیا شک ہوسکتا ہے کہ ابن عباس سے سماع کو امام بخاری کا نہ جاننا دوسرے لوگوں کے اس سماع سے واقفیت کی نفی کو مستلزم نہیں (یعنی اگر امام بخاری اس سماع سے واقف نہیں ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں ہوگا کہ دوسرے لوگ بھی اس سماع سے واقف نہ ہوں) علاوہ ازیں ازروئے اصول اثبات کو نفی پر ترجیح ہوا کرتی ہے۔

حافظ عینی نے اپنی اس تحریر میں ابونصر کے براہ راست حضرت ابن عباس سے حدیث سننے کی ایک دلیل کی جانب اشارہ کیا ہے کہ تفسیری روایت میں آیا ہے کہ ابونصر نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ”والفجر ولیال عشر“ کا معنی پوچھا تھا، اگر صحیح سند سے اس روایت کا ثبوت ہوجائے تو یہ واضح اور روشن دلیل ہوگی کہ ابو نصر براہ راست حضرت عبداللہ بن عباس کے شاگرد ہیں اور بلا واسطہ ان سے حدیث کی سماعت کی ہے۔

اور تفسیر طبری میں امام ابن جریر طبری نے سورة الفجر کی تفسیر میں بسند صحیح اس روایت کو نقل کیا ہے دیکھئے جامع البیان لابن جریر طبری، ج:۱۵، ص: ۲۱۰۔ اس لئے بلا شبہ حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ اثر صحیح و متصل سند کے ساتھ ثابت ہے اور اسے منقطع السند سمجھنا از روئے دلیل صحیح نہیں۔ اگرچہ حضرت ابن عباس سے اس کے خلاف قول بھی سند صحیح کے ساتھ منقول ہے جسے امام بخاری نے صحیح بخاری میں تعلیقا اور امام عبدالرزاق نے مصنّف میں مسندا ذکر کیا ہے۔

اقوال تابعین و اتباع تابعین:

(۱) عن ابن جریج قال سئل عطاء عن رجل کان یصیب امرأة سفاحًا اینکح ابنتہا؟ قال : لا، وقد اطلع علی فرج امہا، فقال انسان: الم یقال: ”لا یحرّم الحرام حلالاً“؟ قال: ذلک فی الامة کان یبغی بہا ثم یبتاعہا، او یبغی بالحرة ثم ینکحہا، فلا یحرم حینئذ کان صنع من ذلک (مصنف عبدالرزاق، ج:۷، ص: ۱۹۷-۱۹۸) بسند صحیح․

ترجمہ: ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے کسی عورت سے حرام کاری کی ہے تو کیا اس کو اس عورت کی لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہوگا؟ تو انھوں نے کہا نہیں (کیونکہ) وہ اس کی ماں کی فرج تک پہنچ چکا ہے۔ (ان کے اس جواب پر ایک شخص نے یہ اشکال پیش کیا کہ) کیا یہ بات نہیں کہی جاتی کہ فعل حرام حلال کو حرام نہیں کرتا (حضرت ابن عباس سے بھی یہ منقول ہے) تو انھوں نے کہا اس قول کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے ایک باندی سے حرام کاری کی پھر اسے خریدلیا، یا کسی آزاد عورت سے بدکاری کی پھر اس سے نکاح کرلیا تو باندی اور آزاد عورت کے ساتھ اس حرام کاری سے وہ باندی اور آزاد عورت اس پر حرام نہیں ہوں گی۔ باندی کو خرید سکتا ہے اور آزاد عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔

یہ عطاء ابن رباح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بڑے شاگردوں میں ہیں اور حضرت ابن عباس وغیرہ سے مروی قول ”لا یحرم الحرام حلالاً“ کا یہ معنی بتارہے ہیں جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ انھوں نے اپنے اساتذہ وغیرہ بزرگوں سے اس قول کا یہی معنی سمجھا تھا۔ اور اس معنی کی صورت میں حضرت عبداللہ بن عباس سے اوپر منقول قول اور اس قول میں تعارض بھی نہیں ہوگا اور ایک عالم اور صاحب عقل و فہم کی باتوں میں تعارض و اختلاف کا نہ پایا جانا ہی اصل ہے۔ ”فافہم وتشکر“

(۲) عن عمر و بن دینار انہ سأل عکرمة مولی ابن عباس رجل فجر بامرأة اَیصلح لہ ان یتزوج جاریة ارضعتہا ہی بعد ذلک قال: لا المحلیٰ لابن حزم، ج:۱۱، ص: ۸۰، رقم المسئلة ۱۸۶۶ و روی عبدالرزاق فی مصنفہ نحوہ، ج:۷، ص: ۲۰۰ (واسنادہ صحیح)

ترجمہ: مشہور تابعی عمروبن دینار مکی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس کے آزاد کردہ غلام (اور ان کے شاگرد رشید) عکرمہ سے پوچھا کہ کسی شخص نے ایک عورت سے حرام کاری کی تو کیا اس کے لئے درست ہے کہ ایسی لڑکی سے نکاح کرے جسے اس عورت نے اس حرام کاری کے بعد دودھ پلایا ہے ، تو انھوں نے جواب دیا نہیں۔

(۳) عن عثمان بن الاسود عن مجاہد و عطاء قالا : اذا فجر الرجل بامرأة فانہا تحل لہ ولا یحل لہ شيء من بناتہا (مصنف ابن ابی شیبة، ج:۳، ص: ۳۰۴، واسنادہ صحیح)

ترجمہ: عثمان بن الاسود حضرت مجاہد اور عطاء سے روایت کرتے ہیں کہ ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کسی عورت سے بدکاری کرے تو یہ عورت اس کے لئے حلال ہوگی (یعنی یہ شخص اس بدکاری کے بعد بھی اس سے نکاح کرسکتا ہے) اور اس عورت کی لڑکیاں اس کے لئے حلال نہیں ہوں گی۔

(۴) وروی ابن طاوٴس عن ابیہ فی الرجل کان یزنی بامرأة لاینکح امہا و ابنتہا․ (مصنف عبدالرزاق، ج:۷، ص: ۱۹۸ ”وسندہ صحیح“)

ترجمہ: عبداللہ بن طاؤس اپنے والد یعنی طاؤس سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جس نے کسی عورت سے زنا کیا ہے کہ یہ شخص اس عورت کی ماں اور بیٹی سے نکاح نہیں کرسکتا۔

عطاء، عکرمہ، مجاہد اور طاؤس یہ چاروں حضرات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اجلّ تلامذہ اور خاص شاگردوں میں سے ہیں اور یہ چاروں باتفاق بیان کرتے ہیں کہ زنا سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی جس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عباس کے قول ”الحرام لا یحرم حلالاً“ کے بجائے ان کے اس قول کو ترجیح دیا ہے جو ابونصر اسدی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں، جو اوپر مذکور ہوچکا ہے۔

(۵) عن یحییٰ بن ابی کثیر قال: سئل عروة بن الزبیر، وسعید بن المسیب، وابوسلمة بن عبدالرحمن وسالم بن عبداللہ عن رجل اصاب امرأة حراماً ہل یحل لہ نکاح امرأة ارضعتہا فقالوا کلہم: ہی حرام (رواہ الامام محمد بسند قوی فی کتاب الحج، ص: ۳۲۹ ورواہ الامام عبدالرزاق بسندہ فی مصنفہ، ج:۷، ص: ۱۹۸) عن عبداللہ بن یزید مولیٰ آل الاسود نحوہ وفی روایتہ ابوبکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام بدل سالم بن عبداللہ وسندہ ایضاً صحیح ، وذکرہ ایضا الحافظ ابن حزم فی المحلّٰی، ج:۱۱، ص: ۷۹ وقال: ہو قول سفیان الثوری)

یحییٰ بن ابی کثیر کا بیان ہے کہ عروہ بن زبیر بن العوام سعید بن المسیب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف، اور سالم بن عبداللہ بن عمر بن الخطاب سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے کسی عورت سے زنا کیا تو کیا یہ مرد اس لڑکی سے نکاح کرسکتا ہے جس کو اس مزنیہ نے دودھ پلایا ہے تو سب نے کہا کہ یہ نکاح حرام ہوگا۔

اس روایت کو امام عبدالرزاق نے بھی مصنف میں اپنی سند سے بروایت عبداللہ بن یزید مولیٰ آل اسود ذکر کیاہے جس کا حاصل یہ ہوا کہ اس روایت کو دو ثقہ راوی بیان کرتے ہیں البتہ عبداللہ بن یزید کی روایت میں سالم بن عبداللہ کے بجائے ابوبکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام کا نام ہے۔ یہ چاروں حضرات مدینہ منورہ کے ان سات فقہاء میں سے ہیں جن کی علمی جلالت شان کی ایک دنیا معترف ہے، اگرچہ ان مذکور فقہاء میں بعض سے اس کے مخالف قول بھی منقول ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

(۶) عن مغیرہ عن ابراہیم وعامر فی رجل وقع علی ابنة امرأتہ قالا: حرمتا علیہ کلتاہما، وقال ابراہیم: کانوا یقولون اذا اطلع الرجل علی المرأة علی مالا تحل لہ او لمسہا فقد حرمتا علیہ جمیعًا․ (مصنف ابن ابی شیبة، ج:۳، ص: ۳۰۴) وسندہ صحیح․

ترجمہ: مغیرہ بن مِقْسَم امام ابراہیم نخعی اور عامر شعبی سے نقل کرتے ہیں کہ ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنی بیوی کی بیٹی سے حرام کاری کی تو بیٹی اور ماں دونوں اس پر حرام ہوجائیں گی۔ (یعنی ان دونوں میں سے کسی کو بھی اب نکاح میں نہیں رکھ سکتا) اور امام ابراہیم نخعی نے یہ بھی فرمایا کہ لوگ کہتے تھے کہ جس شخص نے کسی عورت کے ایسے حصہ کو دیکھا جسے دیکھنا اسے جائز نہیں یا شہوة سے اس پر ہاتھ پھیرا تو یہ عورت اور اس کی منکوحہ ماں دونوں اس مرد پر حرام ہوجائیں گی۔

امام ابراہیم نخعی (جوتابعی ہیں) فرمارہے ہیں کہ ”وکانوا یقولون“ لوگ کہتے تھے تو یہ کہنے والے ان کے زمانہ میں موجود کبار تابعین و صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہونگے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عہد کے عام تابعین اور صحابہ کا مذہب یہی تھا، امام محمد بن حسن شیبانی نے بھی کتاب الآثار میں بروایت امام ابوحنیفہ عن حماد (بن ابی سلیمان) حضرت ابراہیم نخعی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اذا قَبّل الرجل ام امرأتہ او لمسہا من شہوة حرمت علیہ امرأتہ“ قال محمد و بہ ناخذ وہو قول ابی حنیفة رحمہ اللہ  (کتاب الآثار مع التعلیق المختار، ص: ۲۶۴، رقم الاثر ۴۳۸ مطبوعہ الرحیم اکیڈمی کراچی ۱۴۱۰)

ترجمہ: امام ابراہیم نخعی نے فرمایا کہ جس نے اپنی بیوی کی ماں کا بوسہ لے لیا یا شہوة سے اس کو چھوا تو اس پر اس کی بیوی حرام ہوجائے گی اس اثر کو نقل کرنے کے بعد امام محمد رحمہ اللہ صراحت کرتے ہیں کہ اسی پر ہمارا عمل ہے اور یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں۔

(۷) و عن ابن جریج وعن الحسن قالا: اذا زنی الرجل بام امرأتہ او ابنة امرأتہ حرمتا علیہ جمیعًا (مصنف عبدالرزاق، ج:۷، ص: ۱۹۸ بسند صحیح)

ترجمہ: عبدالملک بن جریج (اتباع تابعین میں سے یہ وہ امام حدیث ہیں جنھوں نے حجاز میں سب سے پہلے حدیث میں کتاب تصنیف کی) اور امام حسن بصری دونوں کا قول ہے کہ جب کسی نے اپنی بیوی کی ماں سے یا بیوی کی بیٹی سے زنا کیا تو اس پر سب حرام ہوجائیں گی۔

(۸) ”عن قتادة قال یحییٰ بن یعمر: واللہ  ما حرّم حرامٌ حلالاً قط، قال لہ الشعبی: بل لو رضیت (والصواب لوصیت) خمرا علی ماء حرم شرب ذلک الماء، قال: وکان الحسن یقول مثل قول الشعبی“ (مصنف عبدالرزاق، ج:۷، ص: ۱۹۹ بسند صحیح و رواہ البیہقی بلفظ ”فبلغ ذلک الشعبی فقال لو اخذت کوزا من خمر فسکبتہ فی جب من ماء لکان ذلک الماء حرامًا“ سنن الکبری، ج:۷، ص: ۱۶۷)

ترجمہ: قتادہ روایت کرتے ہیں کہ یحییٰ بن یعمر (قاضی) نے کہا کہ بخدا حرام نے کبھی حلال کو حرام نہیں کیا، تو امام شعبی نے ان سے کہا اگر آپ شراب کو پانی میں ڈال دیں تو اس حلال پانی کا پینا حرام ہوجائے گا۔ قتادہ نے بتایا کہ امام حسن بصری بھی امام شعبی کے قول کے موافق تھے۔

حافظ بیہقی نے بھی امام شعبی کے اس اثر کو بایں الفاظ ذکر کیا ہے کہ یحییٰ بن یعمر کی یہ بات جب امام شعبی کو پہنچی تو اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر تم ایک پیالی شراب پانی سے بھرے مٹکے میں ڈال دو تو یہ پانی حرام ہوجائے گا۔ (امام شعبی کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ ”لا یحرم الحرام حلالاً“ کو عام معنی پر محمول کرنا درست نہیں ہے بلکہ دلائل کے تحت یہ خاص صورتوں پر محمول ہوگا)

(۹) عن الحکم بن عتیبة قال: قال ابراہیم النخعی: اذا کان الحلال یحرّم الحرام فلحرام اشد تحریماً (المحلّٰی لابن حزم، ج:۱۱، ص: ۷۹)

ترجمہ: امام ابراہیم نخعی نے کہا جب حلال حرام کو حرام بنادیتا ہے تو حرام تو بدرجہٴ اولیٰ حرام کردے گا۔ مطلب یہ ہے کہ جب نکاح صحیح کے ذریعہ کسی عورت سے مباشرت کی تو اس عورت کی ماں و بیٹی اس مرد پر حرام ہوجائیں ، تو ناجائز مباشرت سے بدرجہ اولیٰ یہ حرمت ثابت ہوجائیگی)

(۱۰) ”عن الشعبی قال ما کان فی الحلال حراماً فہو فی الحرام حرام“ (مصنف عبدالرزاق، ج:۷، ص: ۲۰۰)

جو چیز حلال کے سبب حرام ہوجائے گی وہ حرام کے ذریعہ بھی حرام ہوگی۔

(۱۱) وعن عبداللہ  بن معقل بن مَقِّرن قال : ہی محرّم علیہ فی الحلال فکیف لاتحرم علیہ فی الحرام․ (مصنف عبدالرزاق، ج:۷، ص: ۲۰۰)

ترجمہ: عبداللہ بن معقل  (۵)نے کہا یہ (یعنی زوجہ کی ماں و بیٹی) جائز مباشرت سے مرد پر حرام ہوجاتی ہیں تو حرام وطی سے کیونکر حرام نہ ہونگی۔

تشریح: ان بزرگوں کے اقوال کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ”زنا“ کے معاملہ میں شدت اور سختی رکھی ہے، چنانچہ زانی کو بعض صورتوں میں پتھر مارمار کر ہلاک کردینے اور بعض دیگر صورتوں میں سوکوڑے مارنے کا حکم دیا۔ پھر اسی کے ساتھ اسے جہنم کی دھمکی بھی دی گئی۔ نیز اس فعل حرام سے پیدا اس کی اولاد کو اس کے نسبی رشتہ سے وابستہ کرنے سے بھی منع کردیا۔ یہ سب احکام دراصل زنا کی حرمت و قباحت میں شدت پیدا کرنے کیلئے ہی نافذ کئے گئے ہیں، لہٰذا اس معاملہ میں مذکورہ شدت کا تقاضا یہی ہے کہ جائز ہم بستری کے مقابلہ میں اس سے بدرجہٴ اولیٰ حرمت ثابت ہوجائیگی۔

اس ضابطہ کو مزید ذہن نشیں کرنے کیلئے اس مثال پر غور کیجئے کہ خداوند عالم نے حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے والوں پر ارکان حج کی ادائیگی سے پہلے بیوی سے ہمبستری کو حرام ٹھہرادیا ہے پھر اس حکم میں شدت پیدا کرنے کے لئے یہ فرمان صادر فرمایا کہ ۹/ذی الحجہ کو عرفہ میں جانے سے پہلے جو اپنی بیوی سے جنسی عمل کرے گا اس کا حج فاسد و اکارت ہوجائے گا، تو صورت مذکورہ میں زانی کے حج کے باطل و بیکار ہوجانے میں کسی ذی فہم کو کیا تردد ہوسکتا ہے۔ بعینہ اسی طرح جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے بعض رشتوں کی قدر و منزلت اجاگر کرنے اور انسانی دلوں میں ان کی طہارت و پاکیزگی کے جذبہ کو بیٹھانے کے لیے یہ حکم دیا کہ بیوی کی ماں اور بیٹی سے نکاح حرام ہے یا بیٹے کی بیوی سے باپ کو اور باپ کی بیوی سے بیٹے کو نکاح کرنا حرام ہے تو اس حکم میں شدت پیدا کرنے کے لئے یہ بھی حکم دیا کہ ان صورتوں میں نکاح کے ساتھ وطی کرنے سے بیوی اور ماں دونوں اس پر حرام ہوجائیں گی ، اسی طرح اگر بیٹے کی بیوی سے کوئی اپنے خیال میں جائز مباشرت کرے گا تو یہ عورت بیٹے اور باپ دونوں کے لئے حرام ہوجائے گی۔ تو زنا کی مذکورہ شدت کا تقاضا یہی ہے کہ یہ تحریم زنا سے بھی ثابت ہوجائے ورنہ لازم آئے گا کہ وطی جائز (جو تخفیف و سہولت کو چاہتی ہے) میں سختی اور زنا (جو شدت و سختی کا متقاضی ہے) میں آسانی اور سہولت پیدا ہوجائے، جو شریعت کی وضع اور حکمت و مصلحت کے یکسرمنافی ہے۔

(۱۲) وعن ابن مسعود رضی اللہ  عنہ قال ما اجتمع حلال وحرام الا غلّب الحرام علی الحلال (مصنف عبدالرزاق، ج:۷، ص: ۲۰۰، وفی سندہ ضعف وانقطاع)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حرام وحلال جب بھی اکٹھا ہوتے ہیں تو حرام کو حلال پر غلبہ دیا جاتا ہے۔

یہ اثر اگرچہ سند کے لحاظ سے کمزور ہے لیکن اپنے مفہوم کے اعتبار سے صحیح ہے، بالخصوص فروج کے باب میں تو حضرات فقہاء کا یہ اصول ہے ”والفروج اذا تعارضا فیہا التحریم والتحلیل غلّب التحریم“ فروج میں جب حلال و حرام کے سلسلہ میں تعارض پیش آجائے تو تحریم کو غلبہ دیا جائے گا۔

اوپر مذکور یہ احادیث و آثار انشاء اللہ ایک طالب حق کو راہ صواب متعین کرنے کے لئے کافی ہونگے۔ آیندہ ”الحرام لا یحرم الحلال“ پر نظر ڈالی جائے گی۔ اور اسی پر انشاء اللہ یہ تحریر مکمل ہوجائے گی۔

مراجع:

(۱)اس حدیث کی سند کے رجال یہ ہیں : ۱جریر بن عبدالحمید الضبی، جوثقہ اور حجت ہیں اصحاب ستہ (بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، امام احمد وغیرہ سب ان سے روایت کرتے ہیں۔ ۲ حجاج بن ارطاة الکوفی القاضی، ان پر اگرچہ بہت سے علمائے رجال نے ”لیس بالقوی“ وغیرہ کی جرح کی ہے، لیکن خطیب بغدادی نے انھیں احدالعلماء بالحدیث والحفاظ لہ کے بلند الفاظ سے یاد کیا ہے اور حافظ مغلطانی نے لکھا ہے کہ امام شعبہ وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے اور امام سفیان ثوری نے ان کے قوت حافظہ کی شہادت ان الفاظ میں دی ہے ”ما رأیت احفظ منہ“ میں نے ان سے بڑا حافظ نہیں دیکھا، اور حافظ الخلیلی اپنی مشہور کتاب الارشاد میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں ”عالم کبیر، ثقة، ضعفوہ لتدلیسہ“ عالم کبیر اور ثقہ ہیں بربنائے تدلیس لوگوں نے ان کو ضعیف کہا ہے، ان کے بارے میں حافظ الخَیل کا قول لائق اعتماد ہے، اس لئے از روئے انصاف اصول محدثین کے تحت حجاج ابن ارطاة ”حسن الحدیث“ سے کم درجہ کے راوی نہیں ہیں۔ ۳ ابن ہانی، ان کا پورا نام حمید بن ہانی، ابو ہانی الخولانی ہے، یہ صحیح مسلم، اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ امام بخاری نے ”ادب المفرد“ میں ان سے روایت کی ہے۔ بعض راویوں نے غلطی سے ابن ہانی کی جگہ ”ام ہانی“ کہہ دیا ہے اور ام ہانی نام کا اس طبقہ میں کوئی معروف راوی نہیں ہے اس لئے اس غلطی پر متنبہ نہ ہونے کی بناء پر بعض حضرات نے انھیں مجہول کہہ دیا ہے، جو صحیح نہیں ہے۔ امام ابن ابی شیبہ نے مصنف میں، امام ابن حزم ظاہری نے ”المحلّٰی“ میں اور فقیہ و محدث ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں انھیں ”ابن ہانی“ ہی کی کنیت سے ذکر کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ ”ابن ہانی“ نام کے ایک دوسرے راوی حدیث بھی ہیں جن سے صرف حَرِیز بن عثمان نے روایت کی ہے، اسی بناء پر حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے انھیں مجہول کہا ہے۔ زیر نظر حدیث کی روایت سے حَرِیز کے استاذ ابن ہانی کا کوئی تعلق نہیں۔ بہرحال مذکورہ حدیث کے تینوں راوی معروف اور ثقہ ہیں۔ البتہ حدیث مرسل ہے، جو ائمہ احناف بلکہ جمہور متقدمین کے نزدیک لائق حجت ہے اور جن حضرات محدثین و فقہاء کے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں، ان کے نزدیک بھی اگر اس کی تائید کسی دوسری مرسل یا مرفوع روایت سے یا کسی صحابی کے قول سے ہوجائے تو وہ مرسل حجت ہوجاتی ہے اور اس حدیث کی تائید متعدد صحابہ کے قول سے ہورہی ہے، جیسا کہ آئندہ سطور سے واضح ہوجائے گا۔ اس لئے اس حدیث سے مسئلہ زیر بحث پر استدلال بے غبار ہے۔ رہا امام بیہقی رحمہ اللہ کا اس حدیث کے بارے میں یہ کہنا ”وہذا منقطع و مجہول و ضعیف، حجاج بن ارطاة لا یحتج بہ فیما یسندہ فکیف بما یرسلہ ممن لا یعرف“ اس حدیث کے لائق احتجاج ہونے میں قطعا مضر نہیں، کیونکہ یہ انقطاعِ ارسال ہے اور یہ ایسی مرسل ہے جو سب کے نزدیک قابل استدلال ہے، اور سند میں مذکور ابن ہانی جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے مجہول نہیں بلکہ معروف ہیں، مجہول ام ہانی اور حَریز کے شیخ ابن ہانی ہیں اور ان دونوں کا اس روایت سے کوئی تعلق نہیں۔ اور حجاج بن ارطاة کے بارے میں موصوف نے مبالغہ سے کام لیا ہے کیونکہ یہ حسن الحدیث سے بہرحال کم درجہ کے نہیں ہیں۔ امام مسلم ان سے مقروناً روایت کرتے ہیں اور سنن اربعہ کے مصنّفین بلاتکلف موقع احتجاج میں ان کی روایت لاتے ہیں۔

(۲)    امام سفیان ثوری اور امام اوزاعی کبار ائمہ محدثین اور فقہائے مجتہدین میں سے ہیں ایک طویل عرصہ تک ان دونوں حضرات کے فقہ پر عمل جاری رہا ہے۔

(۳) حافظ ابن حجر نے تقریب میں مغیرہ بن مقسم کے متعلق ”ثقة متقن“ کے بلند توثیقی کلمات کے بعد لکھا ہے: ”اِلاّ انہ یدلّس ولاسیما عن ابراہیم“ مگر حافظ علام کا یہ استثناء محل نظر ہے کیونکہ شیخین نے صحیحین میں متعدد مواقع میں مغیرہ عن ابراہیم سے روایت کی ہے۔

(۴) امام ذہبی لکھتے ہیں : ”ارجاء الفقہاء وہو انہم لایعدّون الصلاة والزکوٰة من الایمان ویقولون اقرار باللسان ویقین بالقلب والنزاع علی ہذا لفظی انشاء اللہ“ (سیر اعلام النبلاء، ج:۵، ص: ۲۳۳) یعنی فقہاء کا ارجاء یہ ہے کہ وہ نماز، زکوٰة (وغیرہ عبادات و اعمال کو) ایمان کا جزء نہیں شمار کرتے ان کے نزدیک ایمان نام ہے زبان کے اقرار اور دل کے یقین کا۔ (محدثین) اور فقہاء کے مابین اس بارے میں اختلاف لفظی ہے (یہ محض تعبیر کا اختلاف ہے ورنہ حقیقت ایمان و اعمال کے بارے میں ان کا مذہب ایک ہی ہے)

(۵) عبداللہ بن معقل کبار تابعین اور کثیر الحدیث ہیں، ایک بڑے محدث ہونے کے ساتھ فقیہ اور عابد و زاہد تھے، ابن فتحون نے ذیل الاستیعاب میں انھیں صحابی بتایا ہے، مگر اس پر کوئی دلیل نہیں پیش کی ہے۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8، جلد: 89 ‏،   جماد ی الثانی‏، رجب  1426ہجری مطابق اگست 2005ء